Monday 19 May 2014

ISI is at No.1 in The World


ISI is at No.1 in The World. See this video and judge whether Geo is right or ISI. The only institution that make us proud.

Thursday 29 November 2012

When will the brother die | اماں بھائی کب مرے گا؟ | How Learn Quran

اماں بھائی کب مرے گا؟

عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر ر
ہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔

ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی "تلاش" کے بعد دو چار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچوں کی دکان پڑ جا کھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نا صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔

ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بکھر میں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہی تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی

"اماں بھائی کب مرے گا؟"

ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا "میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟"
بچی معصومیت سے بولی

"ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!"

اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہی پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ غالبا منٹو نے لکھا ہے کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آ گیا، لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہی دیا۔ بیچارہ رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پتہ پر پڑ گیا۔ صبح آ کر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اب "اہل ایمان" کا "جذبہ ایمانی" بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھا دی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا "ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تو یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا"۔

پچھلے دنوں ایک تاجر نے ایک مزار پر دس لاکھ روپے مالیت کی چادر چڑھائی، جب کہ مزار کے سامنے کے محلے میں درجنوں ایسے بچے گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوں نے قمیض پہنی ہوتی ہے تو شلوار ندارد اور شلوار ہے تو قمیض نہی۔ حضرت مجدد الف ثانی فرمایا کرتے تھے کہ تم جو چادریں قبر پر چڑھاتے ہو اس کے زندہ لوگ زیادہ حقدار ہیں۔ ایک شخص رکے ہوئے بقایاجات کے لیے بیوی بچوں کے ساتھ مظاہرے کرتا رہا، حکومت ٹس سے مس نا ہوئی، تنگ آ کر اس نے خود سوزی کر لی تو دوسرے ہی روز ساری رقم ادا کر دی گئی۔ اسی طرح ایک صاحب کے مکان پڑ قبضہ ہو گیا، بڑی بھاگ دوڑ کی مگر کوئی سننے کو تیار نہی ہوا، اسی دوران دفتر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، پولیس نے پھرتی دکھائی اور دوسرے ہی دن مکان سے قبضہ ختم کروا دیا۔ فائدہ؟ کیا اب اس مکان میں اس کا ہمزاد آ کر رہے گا؟

کیا ہمارا "جذبہ ایمانی" صرف مردوں کے لیے رہ گیا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود زندوں کا خیال رکھیے۔
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

یہ کام ہم سب کو مل کر کرنا ہے. ہم سب کے ارد گرد ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو مجبور ہیں، جو بےکس ہیں، جو غریب ہیں. جن پر ہم کبھی توجہ ہی نہی دیتے.
ایک منٹ کو رکیے. اور آنکھیں بند کر کے اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں. اپنے پڑوسیوں پر، اپنے رشتےداروں پر، جو آپ کی گلی میں ٹھیلے والا ہے اس پر، جو ایک مزدور آپ کے محلے میں کام کر رہا ہے اس پر. جو آپ کے ہاں یا اپ کے دفاتر میں چھوٹے ملازم ہیں ان پر.

یہ سب لوگ ہمارے کتنا قریب رہتے ہیں اور ہمیں معلوم بھی نہی ان کے ساتھ کیا کچھ بیت رہی ہے.... ہمیں اس لیے نہی معلوم کہ ہم ان کے قریب رہتے ہوئے بھی ان سے دور ہیں. ہم نے کبھی ان کا احساس کیا ہی نہی. کبھی ہم نے ان سے کچھ پوچھا بھی نہی.(بلکہ شائد ہمیں ان چھوٹے لوگوں سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے).

ان کو اپنے قریب کیجیے، ان کی جو ممکن ہو مدد کیجیے اور جو آپ کے بس میں نہ بھی ہو تو دل جوئی کیجیے ان کی.

کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم "جوش ایمان" میں ایک ایک گلی میں تین تین، چار چار مساجد بنا دیتے ہیں انھیں خوب سجا دیتے ہیں(نمازی چاہے ہر ایک میں دو دو ہی ہوں) لیکن اسی گلی میں کئی غریب رات کو بھوکے سوتے ہیں ان کی طرف کوئی دھیان ہی نہی دیتا. کسی بیمار کے پاس دوائی خریدنے کے لیے پیسے نہی ہوتے، اس کی مدد کو کوئی "صاحب ایمان" آگے نہی آتا..
خدا کے بندوں کا بھی کچھ خیال کیجیے

Sunday 25 November 2012

Difference between Knowledge and Learning | How Learn Quran

ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی نے ایک بار فزکس کے پرچے میں طلباء سے یہ سوال پوچھا کہ: بیرومیٹر کی مدد سے کسی فلک بوس عمارت کی اونچائی کی پیمائش کس طرح کی جا سکتی
ہے؟
اس آسان سے سوال کا اتنا سا جواب بنتا ہے کہ؛ بیرومیٹر سے زمین کی سطح پر ہوا کا دباؤ ناپ لیا جائے اور اس کے بعد اس فلک بوس عمارت کی چوٹی پر سے ہوا کا دباؤ ناپ لیا جائے، ان دونوں کے فرق سے عمارت کی اونچائی کی پیمائش ہو جائے گی۔

اس سوال کے دیئے گئے جوابوں میں سے ایک طالبعلم نے کچھ ایسا مضحکہ خیز جواب دیا تھا کہ ممتحن نے باقی سوالات کے جوابات پڑھے بغیر ہی اس طالب علم کو اس امتحان میں فیل قرار دیدیا۔ یہ مضحکہ خیز جواب کچھ یوں تھا کہ: بیرومیٹر کو ایک دھاگے سے باندھ کر اس فلک بوس عمارت کی چھت سے نیچے لٹکایا جائے۔ جب بیرومیٹر زمین کو چھو جائے تو دھاگے کو نشان لگا کر بیرومیٹر واپس کھیچ لیا جائے۔ اب اس دھاگے کی پیمائش کی جائے جو کہ اس عمارت کی اونچائی کو ثابت کرے گی۔
ممتحن کو اس بات پر انتہائی غصہ تھا کہ طالبعلم نے جس گھٹیا انداز سے عمارت کی اونچائی پیمائش کرنے کا طریقہ بتایا تھا وہ ایک بہت ہی بنیادی سا طریقہ تھا جس کا نا تو اس بیرومیٹر سے کوئی تعلق تھا اور نا ہی فزکس کے کسی اصول سے۔ جبکہ طالبعلم نے اپنے فیل کیئے جانے کو ایک ظالم رویہ قرار دیا اور یونیورسٹی کو تحقیق کرنے کیلئے درخواست دیدی کہ صحیح جواب دیئے جانے کےباوجود اُسے کس لیئے فیل کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی نے اپنے قانون کے مطابق فورا اس مسئلے کے حل کیلئے
ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور ایک افسر بھی مقرر کر دیا۔

اس تحقیقاتی افسر نے اپنے سربراہ کو رپورٹ دی کہ طالبعلم کا جواب تو بالکل ٹھیک ہے مگر اس جواب سے طالب علم کی فزکس سے کسی قسم کی آگاہی نظر نہیں آتی۔ تاہم اس سربراہ نے طالب علم کو ایک موقع دینے کیلئے اپنے دفتر میں بلوا لیا۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے طالبعلم سے اسی سوال کا جواب زبانی دینے کیلئے کہا۔ طالبعلم نے کچھ دیر سوچا اور کہا؛ میرے پاس اس سوال کے کئی ایک جواب ہیں جن کی مدد سے ایک فلک بوس عمارت کی اونچائی معلوم کی جا سکتی ہے، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کو کونسا جواب دوں؟ سربراہ نے کہا، کوئی بات نہیں، تم مجھے اپنے سارے جوابات سے ہی آگاہ کردو۔

طالب علم نے کہا؛ جی ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بیرومیٹر کو اس عمارت کی چوٹی سے زمین پر گرایا جائے۔ زمین تک پہنچنے کے وقت کو قانون تجاذب کی روشنی میں دیکھا جائے تو عمارت کی اونچائی کا بآسانی پتہ چل جائے گا۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر سورج روشن ہو تو بیرومیٹر کے بننے والے سائے کی پیمائش کر لی جائے اور اس عمارت کے سائے کی بھی پیمائش کرلی جائے جس کی اونچائی کی پیمائش کرنا مقصود ہو۔ اب بیرومیٹر کی اصل لمبائی اور اس کے بننے والے سائے کے تناسب سے عمارت کے سائے کے تناسب کے ساتھ اخذ کیا جا سکتا ہے۔

اور اگر ہم اپنے دماغ پر زیادہ زور نا ڈالنا چاہیں تو تیسرا اور سب سے آسان طریقہ طریقہ یہ ہے کہ جس عمارت کی اونچائی کی پیمائش کرنا مقصود ہو اس کے چوکیدار سے جا کر ملا جائے اور اسے کہا جائے کہ اس عمارت کی ٹھیک ٹھیک اونچائی بتادو تو یہ بیرومیٹر تمہارا ہوا۔

ایک اور چوتھا طریقہ بھی ہے مگر میرے خیال میں وہ اتنا قابل عمل نہیں ہے۔ بہرکیف اگر ہم معاملات کو اتنا الجھانے پر آمادہ ہو ہی جائیں تو وہ طریقہ یہ ہے کہ بیرومیٹر سے سطح زمین پر ہوا کا دباؤ معلوم کیا جائے اور پھر اس عمارت کی چھت پر جا کر وہاں ہوا کا دباؤ معلوم کیا جائے، دونوں دباؤ کے درمیان کا فرق اس عمارت کی اونچائی کو ظاہر کرے گا۔ تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ یہی بات سننے کیلئے تو بے چین تھا، اس نے طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا شاباش بولتے رہو میں تمہیں غور سے سن رہا ہوں۔ مگر طالب علم کا خیال تھا کہ چونکہ یہ بات اتنی قابل عمل نہیں ہے اس لیئے اس کے کہنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔

اس صورتحال کے بعد طالب علم کو یونیورسٹی میں برقرار رکھا گیا۔ بعد میں نا صرف یہ طالب علم فزکس کے امتحان میں کامیاب ہوا بلکہ آنے والے دنوں میں اس نے فزکس کو وہ کچھ دیا جو پہلے ممکن نا تھا اور نوبل پرائز کا حقدار بھی بنا۔

جی، اس طالب علم کا نام نیلز ہنرک ڈیوڈ بوہر (Niels Henrik David Bohr) ہے جو کہ ڈنمارک کا مشہور ماہر طبعیات اور ایٹمی طبیعیات کا بانی تھا۔ 1916ء میں کوپن ہیگن یونیورسٹی میں نظری طبیعیات کا پروفیسر مقرر ہوا۔ 1920ء میں نظری طبیعیات کے ادارے کی بنیاد ڈالی اوراس کا پہلا ناظم منتخب ہوا۔ 1922ء میں طبیعیات کا نوبل انعام ملا۔ 1938ء میں امریکہ گیا اور امریکی سائنس دانوں کو بتایا کہ یورینیم کے ایٹم کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کرنا ممکن ہے۔ اس کے اس دعوے کی تصدیق کولمبیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کی۔ ڈنمارک واپس گیا تو ملک پر نازیوں کا تسلط ہوگیا۔ 1943ء میں امریکہ چلا گیا۔ 1944ء میں واپس ڈنمارک آیا۔ 18 نومبر 1962ء کو ڈنمارک میں اس کا انتقال ہو گیا۔

Wednesday 21 November 2012

The Story of Aristotle in Urdu | The Importance of Education | How Learn Quran

دوہزار سال پہلے کا ذکر ہے ، مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے ایتھنز میں اکیڈمی کھولی جہاں وہ امراوشرفا کے لڑکوں کو تعلیم دینے لگا۔ جب اکیڈمی میں خاصی چہل پہل ہوگئی، تو اس نے روزمرہ کام کاج کی خاطر ایک اٹھارہ سالہ لڑکا بطور خدمت گار رکھ لیا۔ وہ لڑکا چائے پانی لاتا اور دیگر چھوٹے موٹے کام کرتا تھا۔ یہ اکیڈمی صرف امرا کے لیے مخصوص تھی۔ چنانچہ لڑکا اپنا کام کرچکتا، تو باہر چلا جاتا۔ اُدھر جماعت کے دروازے بند کیے جاتے اور افلاطون پھر طلبہ کو تعلیم دینے لگتا۔ وہ لڑکا بھی دروازے کے قریب بیٹھا اندر ہونے والی باتیں سنتا رہتا۔
دو ماہ بعد افلاطون کی جماعت کانصاب ختم ہوگیا۔ اب حسب روایت ایک شاندار تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں شہر کے سبھی عالم فاضل شرکت کرتے تھے۔ طلبہ کے والدین بھی شریک ہوتے ۔تقریب میں جماعت کے ہرطالب علم کا امتحان بھی ہوتا، وہ یوں کہ ہرایک کو کسی موضوع پر سیرحاصل گفتگو کرنا پڑتی۔ چنانچہ اس تقریب کا موضوع ’’علم کی اہمیت ‘‘ تھا۔ افلاطون کی جماعت سے حال ہی میں فارغ التحصیل ہونے والے طالب علم ڈائس پہ آتے، موضوع کے متعلق کچھ
جملے کہتے اور پھر لوٹ جاتے
۔
کوئی طالب علم بھی ’’علم کی اہمیت‘‘ پر متاثر کن تقریر نہ کرسکا۔ یہ دیکھ کر افلاطون بڑا پریشان ہوا۔

اچانک خدمت گار لڑکا اس کے پاس پہنچا اور گویا ہوا ’’کیا میں تقریر کرسکتا ہوں؟‘‘ افلاطون نے حیرت اور بے پروائی کی ملی جلی کیفیت میں اسے دیکھا اور پھر لڑکے کی درخواست مسترد کردی۔ اس نے کہا ’’میں نے تمہیں درس نہیں دیا، پھرتم کیسے اظہار خیال کرسکتے ہو؟‘‘ لڑکے نے تب اسے بتایا کہ وہ پچھلے دو ماہ سے دروازے پر بیٹھا اس کا درس سن رہا ہے۔
تب تک افلاطون اپنے تمام شاگردوں سے مایوس ہوگیا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے نوجوان کوحاضرین کے سامنے پیش کیا

لڑکے کو تقریر کرنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا بولنا شروع ہوا، تو آدھے گھنٹے تک علم کی فضلیت پر بولتا رہا۔ اس کی قوت گویائی اور بے پناہ علم دیکھ کر سارا مجمع دنگ رہ گیا۔ تقریر بڑی مدلل اور متاثر کن تھی۔ جب لڑکا تقریر مکمل کرچکا، تو افلاطون پھر ڈائس پر آیا اور حاضرین کو مخاطب کرکے بولا ’’آپ جان چکے کہ میں نے پوری محنت سے طلبہ کو تعلیم دی اور دوران تدریس کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی۔ میرے شاگردوں ہی میں سیکھنے کے جوہر کی کمی تھی، اسی لیے وہ مجھ سے علم پانہ سکے ۔ جبکہ یہ (لڑکا) علم کی چاہ رکھتا تھا، لہٰذا وہ سب کچھ پانے میں کامیاب رہا جو میں اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہتا تھا۔‘‘

۔آج دنیا اس "لڑکے "کو "ارسطو "کے نام سے جانتی ہے جس نے فلسفے سے لے کر سائنس تک میں اپنے نظریات سے دیرپا اثرات چھوڑے۔ اس کا شمار نوع انسانی کے عظیم فلسفیوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے۔

 

Tuesday 20 November 2012

KINDNESS WITH WIFE | Win the Heart of Your Wife | How Learn Quran



1. Kindness toward your wife when you wish to enter into her

It is desirable, when one goes into his wife on his wedding night, to show her kindness, such as presenting her with something to drink, etc.

This is found in the hadith narrated by Asmaa' bint Yazid ibn As-Sakan who said: "I beautified 'As'ishah for Allaah's Messenger, then called him to come to see her unveiled. H

e came, sat next to
her, and brought a large cup of milk from which he drank. Then, he offered it to 'Aa'ishah, but she lowered her head and felt shy. I scolded her and said to her: "Take from the hand of the Prophet." She then took it and drank some. Then, the Prophet said to her, "Give some to your companion."

At that point, I said: "O Messenger of Allaah, rather take it yourself and drink, and then give it to me from your hand." He took it, drank some, and then offered it to me. I sat down and put it on my kness. Then, I began rotating it and following it with my lips in order that I might hit the spot from which the Prophet had drunk. Then, the Prophet said about some women who were there with me: "Give them some." But, they said: "We don't want it." (ie. we are not hungry). The Prophet said: "Do not combine hunger and fibbing!"
 

The acts of Companions | A story of Hazrat Abu Huraira R.A | How Learn Quran


Ek baar Hazrat Abu Huraira RA bazar mein gaya aur buland awaz mein logon say kaha k "logo Masjid e Nabwi mein Muhammad SAWW ka Wirsa Taqseem ho raha hai aur tum yahan kin kamon mein lagay howay ho" to log kaam chorh ker bhagtay howay Masjid mein gaye to dekha k woahan Ahadith ke taleef di ja rahi thi , ap nay kaha k ye he to Wirsa hai Paighambar maal to nahi chorh ker jatay. wo to Ilm chorh ker jatay hain aur jis nay is Ilm ka hissa pa lia us nay ap ke wirasat ka hissa pa lia. in mein itnee tarap thi k agay anay wali naslon ko ye wirsa muntaqil kia jaye. Ahadith ka Ilm kessay agay pohncha.

*Ishaq as sabihi - 300 Ustadon say sabaq hasil kia

*Abdullah bin Mubarak - 1100 Mohadaseen say Ilam Hasil kia

*(Imam Abu Hanifa k Ustadon mein say thay)

*Malik Ibne Annas - 900 Mohadaseen say

*Hishaam bin Abdullah 1700 Shayukh say

*Abu Noyumal Asbahani 800 Ulema

*Ibne Asakir 1329 Ulima say

Ahmed Ibne Furat 1770 Shayukh say

Imam Zohri - 20 saal taak Musyub ke chokhat na chori

Hamad bin Zaid - 20 saal Ayub ke ham rakabi ke

Rabi Ibne Annas 10 saal taak Hassan Basri k saath rahay

Ibne Zarara 14 Saal Ibne Olaya k halqay mein rahay

Ibne Juraid 18 saal Atta Ibne Kissan k shagird rahay

Saabit bin Asslam 40 saal taak Imam Malik k Dars k Halqay mein shamil rahay

This post is written in roman Urdu.
 

Monday 19 November 2012

Music is a weapon of Satan | MUSIC SHETAN KA HATHIYAR HAI

Ek research hai k jis mein ye check kia gaya k jab ghana bajana hota hai k Shetan ganay walay k uper sawar ho jata hai aur mehfil mein logon k uper bhi aata jata hai, aur un logon mein ek jhoomnay wali kefiat aa jati hai. ap aksar note karain gay k agar ap ek essay crowd mein shamil hain jo jhoom raha ho, aur ap koi zikar ker rahay hain dil mein to ap khud ko un say aalag mehsos karain gay, ap ko Shetan ke mojoodgi saaf mehsoos hogi.
 
South Africa k ek Scholer hain Rasheed Karolia (google ker lain) unhaon nay is per kafi Research ke hai. Quran mein Sura e Shura mein hai k "mein tumhain batoon k Shayateen kin per utartay hain, ye her Jhootay aur shakhat gunah gar per utartay hain. (poetry kia hai Jhoot he jhoot, fahashi, jazbat bharkanay wali, Jins ko barkhanay wali ) Shetani wajad kia hai ??? ye jo haal parta hai ye kia hai ? Shetan gana sunnay walay aur ganay walay k ander halool ker jata hai.

Sharee Imani , Islami Ebaadat mein logon ko haal nahi parta kyun k Muhammad per baykhudi ke kefiat nahi howee. jin ko hoti hai wo khud ko check karain k wo kis biddat ka shikar hain. sura e Zukhraf ke ek ayat bhi is baat ke wazahat kerti hia , Shetan masoom bachon ko nahi chorta. Aksar maain khush hoti hain k un k bachay gana ga rahay hain ya ganay per jhoom rahay hain . Shetani messages music k zairay diye jatay hain. 21-3- 1999 , The News mein ek Article publish howa tha " Vibes scripted" purasrar awazain. read karain.

This post is written in roman Urdu.