Sunday 18 November 2012

Music is Haram in Islam | How Learn Quran | Must Think it

شادی بیاہ میں عموماً ناچ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے، گھروں میں ڈومنیوں اور میراثنوں کا اور گھر سے باہر مرادنی محفلوں میں بازاری عورتوں ہجڑوں کا، ایسی محفلوں میں شریف زادیوں کا خواہ کنواری ہوں یا بیاہی، شوہر والی ہوں یا بیوہ، شریک ہونا درکنار ان کا ان آوارہ بد وضعوں کے سامنے آنا ہی سخت بے ہودہ و بےجا ہے۔
 صحبت بد، زہر قاتل ہے اور عورتیں نازک شیشیاں جن کے ٹوٹنے کو ادنٰی ٹھیس بہت ہوتی ہے تو ایسوں کو تو گھر میں ہر گز قدم نہ رکھنے دیں۔ وہ بے حیائیوں کی عادی ہیں، منع کرتے کرتے اپنا کام کر گزریں گی۔ ناچ رنگ کی یہ محفلیں جس طرح شریف گھرانوں اور شریف زادیوں کے حق میں زہر قاتل ہیں، یوں ہی مردوں اور شریف زادوں کےلیے تباہی و بربادی کا باعث ہیں۔ بازاری عورتوں اور رنڈیوں میں جو بے حیائی، بے شرمی اور بدلحاظی پائی جاتی ہے۔ 
اس سے کون واقف نہیں۔ پھر جب یہ بے حیا و بے شرم عورتیں جب مردوں کی محفلوں میں آتی اور کولہا کمر مٹکا کر، آنکھیں چمکا کر نیم برہنہ لباس میں اپنا جو ہر دکھاتی اور اپنی رسیلی آواز کو رس کانوں میں گراتی ہیں تو وہاں کون سا مرد ایسا ہوتا ہے جو ٹکٹکی باندھ کر اس کی اداؤں کا جائزہ نہیں لیتا اور اس کے گانوں کو مزے لے لے کر نہیں سنتا۔ نامحرم عورت کو مرد دیکھتے ہیں اور گھور گھور کر دیکھتے ہیں یہ آنکھوں کا زنا ہوا۔ 
نامحرم عورت کی آواز سنتے اور پوری توجہ سے سنتے ہیں یہ کانوں کا زنا ہوا اور جب وہ اپنی بے حیائی کا مظاہری کرتی ان میں سے کسی کے پاس سے گزرتی ہے تو یہ اس سے باتیں کرنے یا آواز کسنے یا فقرے چست کرنے میں نہیں شرماتے یہ زبان کا زنا ہوا پھر ان کی کے ساتھ، فحش حرکتوں کے باعث ان مردوں کے دلوں میں برے خیالات آتے ہیں یہ دل کا گناہ ہوا۔ کبھی کبھی جوش و ولولے میں آکر اس کے جسم کو ہاتھ بھی لگالیتے یہ ہاتھ پیروں کا زنا ہوا۔ 
غرض ناچ رنگ کی ان محفلوں میں جن فاحشہ حرکتوں، بدکاریوں اور دین و اخلاق کو تباہ کرنے والی باتوں کا اجتماع ہوتا ہے یہ ایسی باتیں نہیں جنہیں بتایا گنایا جائے۔ ایسی ہی مجلسوں میں شرکت کے باعث اکثر نوجوان بالخصوص وہ جن میں خود سری کا مادہ ہوتا ہے جنہیں کسی کی پر سش کا خطرہ نہیں ہوتا، جذبات کی رو میں بے قابو ہوجاتے ہیں۔ طوائفوں کے دام فریب کا شکار ہوجاتے ہیں، آوارگی کو اپنا مشغلہ بنالیتے ہیں۔ دولت برباد کر بیٹھتے ہیں، کمائی لٹاتے ہیں، بازاریوں سے تعلق ہی میں زندگی کی ساری لذتیں اور مسرتیں ڈھونڈتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گھر والوں اور پاک دامن بیبیوں سے دور رہتے ہیں اور یوں اپنی بربادی و تباہی اپنے ہی ہاتھوں خریدتے ہیں اور اگر ان بے ہودگیوں اور آوارہ گردیوں سے کوئی بندہ خدا بچ بھی گیا تو اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ حیاء و غیرت کی چادر اتار کر سر سے پیر تک بے حیائی اور بے غیرتی کا مجسمہ بن جاتے ہیں۔
 بعض لوگوں کے متعلق تو یہاں تک سننے اور دیکھنے میں آیا کہ خود بھی ان مجلسوں میں شریف ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ جوان بیٹوں اور بیوی بیٹیوں تک کو لے جاتے ہیں۔ ایسی بدتہذیبی کے مجمع میں باپ بیٹے اور ماں بیٹی کا ساتھ ساتھ رہنا جس بے غیرتی اور بے حمیتی کا پتا دیتا ہے وہ بیان کا محتاج نہیں۔
 اس سے بڑھ کر رونا اس بات کا ہے کہ اپنی جھوٹی کھوٹی ناموری اور شہرت کو آڑ بناکر لڑکی والے، لڑکے والوں پر دباؤ ڈالتے بلکہ نسبت کے وقت ہی طے کر لیتے ہیں کہ ناچ باجا لانا ہوگا ورنہ ہم شادی نہ کریں گے۔ لڑکی والا یہ خیال نہیں کرتا کہ بے جا صرف نہ ہو تو اسی کی لڑکی کے کام آئے گا۔ ایک وقتی خوشی کےلیے یہ سب کچھ کرلیا لیکن یہ نہ سمجھا کہ لڑکی جہاں بیاہ کرگئی وہاں تو اب اس کے بیٹھنے کا ٹھکانا نہ رہا۔ ایک مکان تھا وہ بھی قرض کا سیلاب بہا کرلے گیا۔ اب تکلیف ہوئی تو میاں بیوی میں لڑائی ٹھنی اور اس کا سلسلہ دراز ہوا تو اچھی خاصی جنگ قائم ہوگئی اور نتیجہ نکلا، دونوں کے درمیان طلاق و جدائی یہ شادی ہوئی یا خانہ بربادی۔ ہم نے مانا کہ یہ خوشی کا موقع ہے اور مدت کی آرزو کے بعد یہ دن دیکھنے نصیب ہوئے بے شک خوشی کرو مگر حد سے گزرنا اور حدودِ شریعت سے باہر ہوجانا کسی عقلمند کا کام نہیں۔ کام وہ کرو جس سے دنیا میں بول بالا اور آخرت میں منہ اجالا ہو اور وہ ہے ہر کام اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کےلیے انجام دینا اور شریعت مطہرہ کا دامن مضبوطی سے تھام کر اپنی ناجائز خواہشوں سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دست بردار ہوجانا۔ —
 

No comments:

Post a Comment